غزل
بہت رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا آخر
جو یادوں کے جھروکوں کو بھی شاید دھو گیا آخر
نہ ماتم ہے نہ سناٹا عجب سرگوشیاں سی ہیں
مری چوکھٹ پہ سر رکھ کر وہ لڑکا سو گیا آخر
میں خود اشکوں کے دریاؤں کی پہنائی کا حاصل تھا
مگر وہ ایک قطرہ بار ہستی دھو گیا آخر
مجھے بھیگی ہوئی آنکھوں میں رہنے کا سلیقہ ہے
میں گیلے کاغذوں میں لفظ سارے بو گیا آخر
وہ رستہ جو تری تربت سے ہو کر مجھ تلک آیا
وہ رستہ وقت کی پہنائیوں میں کھو گیا آخر
متینؔ اقبال آنکھیں پونچھ لو تکیہ چھپا رکھو
وہ دیکھو اپنے آنگن میں سویرا ہو گیا آخر
اقبال متین