بہت چاند سورج ستارے ہوئے
مگر ہم اندھیروں کے مارے ہوئے
یہ چہرہ یہ گیسو چمکتے رہیں
ہمیشہ غموں سے سنوارے ہوئے
یہ آنکھوں میں اترے ہوئے رتجگے
تری قربتوں کے شمارے ہوئے
تمنا کے ساحل پہ بکھرے گوہر
تمھارے ہوئے نہ ہمارے ہوئے
فقط دلبروں نے ہی سمجھاانہیں
محبت کے جو بھی اشارے ہوئے
کبھی وہ دوبارہ بسیں گے کہیں
دلوں سے نظر سے اتارے ہوئے
بدلتا نہیں ہے نصابِ وفا
خسارے ہوئے تھے خسارے ہوئے
نہ جنت نہ دوزخ کہاں جائیں ہم
عذابِ جہاں سے گزارے ہوئے
نزہت عباسی