behnay Lagi Hay Ganga mry ghar kay Qareeb say
غزل
بہنے لگی ہے گنگا مرے گھر قریب سے
بجھنے لگی ہے پیاس مری اب نصیب سے
من خوش اسی ہی بات کو ہے سوچ سوچ کے
پوچھا کریں گے حال تو اکثر حبیب سے
بوندیں ٹپک رہی ہیں باتوں سے شہد کی
ملنے لگی ہوں میں یہاں اک خوش نصیب سے
مشکل نہیں ہے اس جہاں انساں کو مارنا
گھر لے لیا کسی نے میرے گھر قریب سے
لانا ہے ہے چھین کر مجھے ظلمت سے روشنی
لینا ہے بدلہ آج مجھے دل رقیب سے
پھیلاتا ہے جو ہاتھ زمانے کے سامنے
کرتا ہے کون بات ہی اس بدنصیب سے
مطلب نکال چال کوئی دوسری چلے
بچ کر ہمیشہ تم رہو ظالم نقیب سے
غفلت کی نیند کا مزہ جو لوٹنے لگا
بھاگا ہمیشہ دور ہے والد نجیب سے
مو جوں کی ساز باز نے ہم کو ڈبو دیا
ساحل تھا عین سامنے گزرے قریب سے
ممکن نہیں علاج تھا عشق مریض کا
کرتے رہے یوں مفت میں جھگڑا طبیب سے
سامان زندگی تھا سہارا فقیر کا
سیلاب لے گیا ہے بچارے غریب سے
الجھن میں ہوں کہ حادثے کا سامنا نہ ہو
آنے لگے ہیں سپنے مجھے کچھ عجیب سے
جا دور جا یہاں سے مری جان بخش دے
گل نے کہا یہ روتے ہوئے عندلیب سے
دل قطروں میں ڈھلے تو بنے اک غزل جناب
گزرے ہیں ان ہی گھاٹیوں سے ہم شکیب سے
انجم چلو جہاں میں بڑی احتیاط سے
ملنا ہے ایک دن تجھے جا کر حسیب سے
شہناز انجم
Shahnaz Anjum