غزل
بہ آسانی کہیں شاداں دل ناشاد ہوتا ہے
بڑی بربادیوں کے بعد یہ آباد ہوتا ہے
ٹھہر اے گردش دوراں وہ لب جنبش میں آتے ہیں
سراپا گوش ہو کر سن کہ کیا ارشاد ہوتا ہے
در ساقی سے آزاد دو عالم اٹھ نہیں سکتا
قیود مذہب و ملت سے رند آزاد ہوتا ہے
گزشتہ حال الفت کیا سنو گے کیا سناؤں گا
یہ قصہ کچھ کہیں سے کچھ کہیں سے یاد ہوتا ہے
پیام صد مصیبت جانتا ہوں اک تبسم کو
لرز جاتا ہوں جس دن خوش دل ناشاد ہوتا ہے
قفس کی تتلیوں اٹھو گلے مل لو لپٹ جاؤ
کہ قید زندگی سے اک اسیر آزاد ہوتا ہے
کہاں پہلی سی قیصرؔ رسم شاگردی و استادی
جو اک مصرع بھی کہہ لیتا ہے اب استاد ہوتا ہے
قیصر حیدری دہلوی