بے جا گریز پا نہیں مجھ سے مرے عزیز
میری اُداسیوں سے ہیں ڈرتے مرے عزیز
گور و کفن کے واسطے آئے ہیں یوں کہ بس
فاقوں سے مرتے وقت کہاں تھے مرے عزیز
تا عمر چیخ چیخ جتاتا رہا ہوں میں
تا عمر میرا درد نہ جانے مرے عزیز
تا عمر بھول کر بھی نہ پوچھا کسی نے حال
تا عمر پھر بھی دل سے نہ اُترے مرے عزیز
تا عمر ایک بات معمّا بنی رہی
کیونکر ہیں میری جان کے درپے مرے عزیز
افسوس بات بات کو سمجھوں میں ایک بات
افسوس! ایک بات نہ سمجھے مرے عزیز
روزِ حساب دیں گے گواہی مرے خلاف
صوم و صلاۃ بعد میں پہلے مرے عزیز
تنہائیوں کی دھوپ میں جاوید کو بہ کو
پھرتا ہوں میں پکارتا ہائے مرے عزیز
آصف جاوید