غزل
بے سبب راہ میں کیوں آہ و بکا کی ہوگی
زندگی ہم نے کہیں تجھ سے خطا کی ہوگی
وہی تپتی ہوئی دھرتی وہی اڑتے بادل
شہر در شہر یہی شکل ہوا کی ہوگی
پھر جنم لیں گے ملن جسم کا ہوگا لیکن
وہی چادر وہی دیوار حیا کی ہوگی
سنگ و دیوار سے ہر شہر میں رشتہ ہوگا
دشمنی ہم سے مگر آب و ہوا کی ہوگی
خالی خالی سی مری طرح سے بکھری بکھری
ملتی جلتی یہی تصویر خلا کی ہوگی
میری آواز پہ آواز نہ آئی ماہرؔ
کوئی مجبوری ادھر کوہ ندا کی ہوگی
کیلاش ماہر