غزل
بے قراری سی بے قراری ہے
سانس لینا بھی اب تو بھاری ہے
موت کو کس لئے کریں بدنام
زندگی زندگی سے ہاری ہے
آدمی اس سے بچ نہیں سکتا
وقت سب سے بڑا شکاری ہے
کیا ہوا گر نہیں خوشی اپنی
غم کی جاگیر تو ہماری ہے
شکل اپنی نہ دیکھیے اس میں
آئنہ جو چمک سے عاری ہے
شام کے رنج کو بھی یاد رکھے
چڑھتے سورج کا جو پجاری ہے
گلستاں آپ کا سہی لیکن
زندگی کس نے اس پہ واری ہے
ہاتف عارفی فتح پوری