بے نیازِ سحر ہو گئی
شامِ غم معتبر ہو گئی
اک نظر کیا اُدھر ہو گئی
اجنبی ہر نظر ہو گئی
میری دیوانگی ناصحا
آخرش راہبر ہو گئی
زندگی کیا ہے اور موت کیا
شب ہوئی اور سحر ہو گئی
ان کی آنکھوں میں اشک آ گئے
داستاں مختصر ہو گئی
چار تنکے ہی رکھ پائے تھے
بجلیوں کو خبر ہو گئی
ان کی محفل سے اٹھ کر چلے
روشنی ہم سفر ہو گئی
چھڑ گئی کس کے دامن کی بات
خود بہ خود آنکھ تر ہو گئی
طرزؔ جب سے چُھٹا کارواں
زیست گردِ سفر ہو گئی