غزل
بے وطن ہوں وطن میں آکر بھی
جل رہا ہوں چمن میں آکر بھی
میری ہستی کا پوچھتے کیا ہو
جان بے جاں ہے تن میں آکر بھی
پائی ناقدریٔ ادب اکثر
ہم نے بزم سخن میں آکر بھی
رکھا تیر ستم مری جانب
اس نے دیوانہ پن میں آکر بھی
بد نمائی نہ چھپ سکی دل کی
خوش نما پیرہن میں آکر بھی
بے سکوں ہی رہے سدا کی طرح
ہم تری انجمن میں آکر بھی
حیف پائی نہیں اماں ہاتفؔ
شہر والوں نے بن میں آکر بھی
ہاتف عارفی فتح پوری