تبھی آئے گی لبوں پر مرے دل کی بات کھل کے
مری ذات سے ملے جب تری کائنات کھل کے
مرا عشق ہے بس اتنا کہ جگائیں کوئی فتنہ
ترے ہونٹ بند ہو کے مری خواہشات کھل کے
مجھے باندھ کر جنہوں نے سر طاق رکھ دیا ہے
کبھی خود بیاں کروں گا میں وہ سب نکات کھل کے
یہ جو آج بستہ بستہ سا عدو کے رخت میں ہے
یہی گل بدن ملا تھا کبھی پوری رات کھل کے
بڑی بے مزہ گزاری ہے زمانہ سازیوں نے
نہ عداوتیں نبھائیں نہ تعلقات کھل کے
شجاع خاور