تجھے جب بھی میں اک نظر دیکھتا ہوں,,
تو قدرت کے خُوباں ہُنر دیکھتا ہوں,,
چُھپاکر زمانے کی نظروں سے تجھکو,,
تصّور میں شام و سحر دیکھتا ہوں,,
ہے گہرائی کتنی یہ پلکوں کے پیچھے,,
نظر سے مِلا کر نظر دیکھتا ہوں,,
سمایا ہے جب سے تُو قلب و نظر میں,,
تجھے دیکھتا ہوں جدھر دیکھتا ہوں,,
حقیقت میں ہوں خواہ کِتنے ہی پردے,,
میں خوابوں میں تجھکو مگر دیکھتا ہوں,,
مجھے یاد آتا ہے چہرہ نقابی ! ! !
کہ جب جب ادھورا قمر دیکھتا ہوں
کبھی آسماں سے جو گِرتی ہے بجلی,,
تو شعلوں میں اپنا ہی گھر دیکھتا ہوں,,
ہُوا زلفِ برہم کا جب سے مُقّید,,
میں دھڑکن کو زیر و زبر دیکھتا ہوں
صبح شام تجھکو ہی مانگا ہے رب سے
دعا میں ہے کتنا اثر دیکھتا ہوں
ہے جلدی کیوں آذر ذرا ٹھہر جاؤ,,
میں منزل سے پہلے سفر دیکھتا ہوں,,
ندیم آذر