غزل
تجھ کو دانستہ اذیت تو نہیں دے سکتا
میں بچھڑنے کی اجازت تو نہیں دے سکتا
آپ کیا جانیں کہ ہوتا ہے کیا تکمیل کے بعد
اذنِ تکمیل ِمحبت تو نہیں دے سکتا
آپ سے عشق نبھانے کا ارادہ ہے مگر
عشق نبھنے کی ضمانت تو نہیں دے سکتا
تجھ پہ مدت اثر انداز ہوئ ہے شاید
میں تجھے پہلی سی صورت تو نہیں دے سکتا
ہم تھمے وقت کی صورت میں چلو ملتے ہیں
مین رکے وقت کو حرکت تو نہیں دے سکتا
جان لینا بھی سکھایا ہے محبت نے مجھے
میں رقیبوں کو رعایت تو نہیں دے سکتا
تجھ سے میں کیسے رکھوں ، تجھ سے سوا کی امید
میں تجھے اپنی ریاضت تو نہیں دے سکتا
تیرے غم کی مجھے تعمیل تو کرنی ہو گی
میں ترے غم کو ہدایت تو نہیں دے سکتا
عشق کرتا ہوں تو لازم ہے حفاظت تیری
سوچنے کی تجھے فرصت تو نہیں دے سکتا
محسن اسرار