غزل
ترا غرور عبث انتہائی سطح پہ ہے
بلندی پر بھی وہی ہے جو کھائی سطح پہ ہے
پھلانگ سکتا ہوں جتنا ہے دو دلوں کے بیچ
مگر جو فاصلہ جغرافیائی سطح پہ ہے
مجھے نہیں ہے ذرا رنج تہ نشینی کا
مجھے خوشی ہے چلو میرا بھائی سطح پہ ہے
ہم ایسے دیکھنے والوں کا کوئی دوش نہیں
کہ زیر سطح کثافت صفائی سطح پہ ہے
یہ کس ہنر سے کیا تم نے خود کو سیر اے دوست
کہ دودھ پی بھی لیا اور ملائی سطح پہ ہے
پارس مزاری