غزل
تری نسبت سے اپنی ذات کا ادراک کرنے میں
بہت عرصہ لگا ہے پیرہن کو چاک کرنے میں
تری بستی کے باشندے بہت آسودہ خاطر ہیں
تکلف ہو رہا ہے درد کو پوشاک کرنے میں
ہم اپنے جسم کا سونا سفر پر لے کے نکلے ہیں
مگر ڈرتے ہیں اس کو راستوں کی خاک کرنے میں
فقط اک دیدۂ تر ہے کہ جو سیراب کرتا ہے
سمندر سوکھ جاتے ہیں بدن نمناک کرنے میں
ہمارے ساتھ کچھ گزرے ہوئے موسم بھی شامل ہیں
تماشا گاہ عالم تجھ کو عبرت ناک کرنے میں
عبید صدیقی