ترے آشفتہ سے کیا حال بیتابی بیاں ہوگا
جبین شوق ہوگی اور تیرا آستاں ہوگا
زبان شمع محفل سے سنا ہے اہل محمل نے
ترا انجام کیا پروانۂ آتش بجاں ہوگا
تلاطم ہے امیدوں کا تصادم آرزوؤں کا
دل ہنگامہ پرور کون تیرا راز داں ہوگا
رہیں یوں ہی اگر رنگینیاں طرز تبسم کی
مرے زخم جگر پر خندۂ گل کا گماں ہوگا
تجمل سے گزر ہوگا ترے کوچے میں عاشق کا
تمناؤں کا لشکر کارواں در کارواں ہوگا
کبھی توفیق ترک ماسوا کی ہو ہی جائے گی
دل آزاد ہوگا اور عیش جاوداں ہوگا
سرور افزا و مستی خیز و شورش آفریں ہوگی
وہ بزم شعر جس میں وحشتؔ شیوا بیاں ہوگا
وحشت رضا علی کلکتوی