غزل
ترے فراق میں جو چشمِ تر ہوئی میری
یہ زندگی تو غموں میں بسر ہوئی میری
نہیں تھے تم متوجّہ اگر مری جانب
بتاؤ کیسے تمہیں کب خبر ہوئی میری؟
کی اِلتجا میں نے ربّ کریم سے آخر
کہ زندگی کی یہاں پھر سحر ہوئی میری
خدا کا شکر ہے اشکوں کا رُک گیا دریا
کوئی تو بات تمہیں دردِ سر ہوئی میری
یہ وقت کتنا ہے ظالم بیان سے باہر
اکیلے خامشی سے ہی گزر ہوئی میری
ثمرؔ نے راہِ حیات اختیار کی ایسی
تمام عمر یوں سیدھی ڈگر ہوئی میری
ثمرین ندیم ثمر