ترے فراق میں دل سے نکال کر دنیا
چلا ہوں سکے کی مانند اچھال کر دنیا
۔
بڑھا لیا ترے دامان کی طرف اک ہاتھ
اور ایک ہاتھ میں رکھی سنبھال کر دنیا
۔
میں اپنے حجرے میں نان و نمک پہ قانع تھا
وہ چل دیا مری جھولی میں ڈال کر دنیا
۔
ہماری کھوج میں پھرتے ہیں انفس و آفاق
ہم ایسے دربدروں کا خیال کر دنیا
محسن چنگیزی