تشنگی زندہ حوالوں میں بدل جاتی ہے
مشک جب پاؤں کے چھالوں میں بدل جاتی ہے
ہم سے اک بار ملو گے تو کھلے گا تم پر
تیرگی کیسے اجالوں میں بدل جاتی ہے
کیا ہوا وہ جو نظر آتے ہیں بدلے بدلے
شکل دانے کی ابالوں میں بدل جاتی ہے
بات جو اہلِ صداقت کی زباں سے نکلے
رفتہ رفتہ وہ مثالوں میں بدل جاتی ہے
عشق کی موج کو لفظوں کی ضرورت ہی نہیں
یہ خیالوں ہی خیالوں میں بدل جاتی ہے
کچھ نہ کچھ ہجر کے صدمے بھی اثر کرتے ہیں
کچھ نہ کچھ شکل بھی سالوں میں بدل جاتی ہے
جان جینے کی روایت سے بغاوت کرکے
زندگی کتنے سوالوں میں بدل جاتی ہے
جان کاشمیری