تشنہ کامی تھی اُس کے اندر بھی
مجھ کو پیاسا لگا سمندر بھی
سر پہ جب سائباں نہیں رہتا
چھین لیتے ہیں لوگ چادر بھی
قتل ہوتی ہیں روز امیدیں
گھرکے اندر بھی گھر کے باہر بھی
سو گئے انتظارِ قاتل میں
میں بھی مقتل بھی اورخنجر بھی
چین آیا نہ دشمنِ جاں کو
حدِ امکان سے گزر کر بھی
شہرِ جاناں کی ہر گلی میں امین
ہم نے سر پر سجاۓ پتھر بھی
امین اڈیرائی