دشتِ پر خار کا مسافر
تحریر عرفان خانی
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ دور تیز ترین ایپس کا ہے جو سو شل میڈیا کے نام سے نئی طرز کی نئی سہولیات ہیں جہاں ان سہولیات نے نۓ لکھنے والوں کوعروض کام,
اے آئی جیسی سہولت فراہم کی ہے وہیں پر نۓ لکھنے والوں سے ان کی زہانت چھین لی ہے جو کتب کے زریعہ سے حاصل کی جاتی تھی ایک وقت آۓ گا کہ نۓ لکھنے والے عروض نام کی تعلیم سے بالکل نا واقف ہوں گے وہ اپنے اشعار عروض کام سے اصلاح شدہ حاصل کریں گے یا پھر اے آئی کی مدد سے غزلیں لکھوائیں گے نہ کوئی مستند شاعر ہو گا نہ کوئی کسی کا استاد سب ہلہ ہلہ میں ہوں گے یہ ہمارا ہی دور ہے جو شعر کی باریک بینیوں کی خاطر نہ صرف مطالعہ کرتے ہیں بلکہ علوم کے حصول کے لۓ ہر وقت طلب گار رہتے ہیں
کوئی عامی بشر کل علم کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ یہ ہے کہ وہ حصولِ علم کا طلب گار رہتاہے جہاں سے بھی اسے کچھ ملتا ہے وہ یاداشت کے طور اسے کتابی شکل میں شائع کر دیتا ہے تاکہ طالب علم اس سے کچھ حاصل کر لیں۔ کچھ علوم ایسے ہیں جن کا دائرہ وسعت چند صفحات پر مشتمل ہوتا ہے مگر ان علوم کو سمجھانے کے لۓ کسی معلم کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر کتاب کی بے شک کتاب معلم ہے مگر وسعت مطالعہ کے لۓ ان علوم کو باریک بینی سے سمجھانے کے لۓ ان چند صفحات کے علم کو اتنا کھولا جاتا ہے کہ وہ چند صفحات سے 600, 700 صحفات تک پہچ جاتا ہے اس لۓ کہ سمجھانے والا مختلف زاویوں سے اس پر اسباق تحریر کرتا ہے ان اسباق میں اس معلم کا اپنا استادانہ علم بھی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی صفحات کی کتاب ترتیب دی جاتی ہے ان طویل ترین اسباق سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ان کتب میں سلیس زبان استعمال نہیں ہوتی دوسرا اسباق اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتے ۔اگر ہم علم عروض کی کتب کو تاریخ میں دیکھیں تو علم عروض کا موجد خلیل بن احمد بصری ہے جس نے دوسری صدی ہجری میں عروض ایجاد کیا یاد رہے خلیل بن احمد بصری خود بھی شاعر تھا , تیسری صدی ہجری میں علم عروض کی کتاب ابواسحاق زجاج نے رقم کی اس کےبعد اج تک علم عروض پر کئی کتب آ چکی ہیں مگر چند ایک کا زکر کروں گا جن میں نصیر الدین طوسیٰ کی کتاب معیار الا شعار , نجم الغنی رام پوری کی بحر الفصاحت , یاس یگانہ کی چراغ سخن, کمال صدیقی کی کتاب عروض سب کے لۓ ,احسان اللہ ثاقب کی کتاب او شاعری سیکھیں سے ہوتا ہوا نسیم شیخ کی کتاب موج سخن , شاعر علی شاعر کی کتاب اردو کا نیا عروض۔ تمام علم عروض کی کتب کی زخامت 100 سے لے کر 300 , 500 یا اس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ظاہر ہے ان سب نے اپنی استادی بھی دکھانی تھیں اور کتاب بھی ذخیم دکھانی تھی جس کے باعث علم عروض کے اسباق کے ساتھ اپنا غوں غاں بھی شامل کیا جیسے بحرالفصاحت نے زخامت کھینچی اس طرح سب نے اپنے اپنے زوایہ مطالعہ و زاویہ علم سے رج کے بات کی کسی نے انتہائی مشکل زبان کا استعمال کیا کسی نے قدرے آسان طریقہ سے روشنی ڈالی ۔بحر حال علم عروض چند صفحات سے زائد کی کتاب نہیں ہے غرض یہ کہ تمامی اساتذہ نے خیل بن احمد بصری کے ایجاد کردہ علم عروض کی نقل کی اور اسے اردو زبان کے اعتبار پر لانے کے لے اصطلاحات کیں ۔عربی فارسی , اردو ۔ مستعل , غیرمستعل , مرکب , مفرد بحور ہیں اس طرح کچھ ماہرعلم عروض نے بحور میں بھی اضافہ کیا جو کہ بہت کم کامیاب ہوۓ مگر کوشش کی داد تو بنتی ہے جنہوں نے نئی بحور دائروں سے اخذ کیں ان بحور کے چیدہ چیدہ نام یہ ہیں , 1۔ بحر مترنم ثاقب, 2۔ بحررزمی مثمن سالم ۔3 ۔ بحر مقلوب الرزی 4 ۔ بحر کازج مضطر مسدس سالم مقبوض, 5۔ بحر کامل مضطر مثمن سالم اخذ, 6۔ بحر رجل مضطر یہ بحور کتنی کامیاب ہوتی ہیں آنے والے دور میں 36بحور مستعمل ہوں گی یا اس سےزائد ۔کیونکہ یہ تمام بحور اس وقت علم عروض کی شائع ہونےوالی نئی کتب میں موجود ہیں جو بھی ان نئی کتب کا مطالعہ کرے گا وہ ان بحور میں بھی کہنے لگے جو ابھی بہت کم شعراء کے مطالعہ میں ہیں ۔کہتے ہیں عروضیہ اچھا شاعر نہیں ہوتا اگر عروضہ اچھا شاعر نہیں تو کوئی شاعر عروض جانے بغیر شاعر بھی تو نہیں کہلاتا اس لۓ ہر مستند شاعر عروضیہ ہی ہوتا ہے یہ الگ بات کہ کوئی علم عروض پر کام کرے کتاب شائع کرے تو اسے ماہر علم عروض کہنے یا لکھنے لگ جائیں ۔ یہ مختصر تعارف اس لۓ پیش کیا کہ آج جس کتاب پر کچھ لکھنے جا رہا ہوں وہ علم عروض کےاسباق پر مشتمل ہے جسکا نام ” تعمیر سخن ” اور مولف رمضان صابر پنوار ہیں اور یہ خود بھی منجھے ہوۓ شاعر ہیں اج انکی کتاب "تعمیر سخن” میں درج 101اشعار پر اور ان کی ترتیب دی ہوۓ علم عروض کے اسباق پر بھی بات ہو گی پہلے اپ انکا کلام مطالعہ فرمائیں تاکہ اپکو ان کے سخن کی پختگی کا علم ہو ۔
چند اشعار آپ کے زوق کے لۓ
اس لب سے ہمکنار لبِِ جام کیا ہوا
پانی حواسِ دید کے منہ میں بھی آیا بھر
نوٹ۔ یہ شعر خیال اور وژن کے مطابق درست ہے اور اچھا ہے مگر ” آیا بھر "کی وجہ سے روانی میں کمزور ہو گیا ہے
شائد بحر کی مجبوری کی وجہ سے شاعر نے ایسا کیا کہ
” منہ میں پانی بھر آیا ” کو , ( منہ میں بھی آیا بھر) لکھنا پڑا خیر یہ بحر کی مجبوری کی وجہ سے ہوا ۔
تھوڑی سی محنت کر کے اسے بہتر کیا جا سکتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا خون کسی دل کا کیا پھر سے ہے ظالم
شمشیرِ نظر آج لہو سے ہے نمیدہ
الفاظ کا چناؤ خیال کی گہرائی عمدہ ہے لیکن روانی پہلے شعر کی نسبت کچھ بہتر ہے
آپ کے زوق سخن کے لۓ چند اشعار
پہلی ہی ملاقات میں ہو جاۓ جو شیدا
امید ِ وفا رکھ نہ کبھی ایسے بشر سے
۔۔۔۔۔
دیا تو نہیں پھونک سے توجس کو بجھا دے
شعلہ ہوں بھڑک اٹھوں گا اتنی نہ ہوا دے
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
رمضان تیرے قتل کے در پے وہ لوگ ہیں
رکھّا جنھیں سر آنکھ پہ دستار کی طرح
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
آواز بے ثبات ہیں ضربیں حیات کی
ٹوٹا ہوا رباب ہے جینا ترے بنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونے کے بھاؤ ریت ان کی بک گئی
موتی ہمارے اصل تھے مقبول نہ ہوۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعی طور پر ان اشعار میں شاعر کی مختلف کیفیات ہیں جن میں شاعرکے اسلوب سخن کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے
شاعر خود ماہر علم عروض ہے جسکی وجہ سے کچھ اشعار میں مترنم الفاظ کا چناو نہ ہونے کی وجہ سے مصرع گنگاتے ہوۓ یا تسلسل سے ادا کرتے ہوۓ محسوس ہوتا ہے کہ اشعار میں روانی نہ ہونے کے برابر ہے کچھ اشعار میں اچھی روانی اور تجرباتی انداز فکر روائتی انداز میں جمالیات کے خوش آئند مضامین پیں کہیں کہیں اشعار کو معانی کا لبادہ پہناتے ہوۓ بھارے اور سخت الفاظ کا استعمال بھی لسانی توجہ چاہتا ہے ۔ غرض یہ کہ پختہ خیال, بندشِ محاسن, نے شاعر کو الجھا کے رکھا ہوا ہے جسکی وجہ سے روانی نکھر کر سامنے نہیں آتی اگر بغور مطالعہ کیا جاۓ تو شاعر کے ہاں تحریکی, تنقیدی, اصلاحی, رومانوی, تجسس, ناکامی, فکِر اسلوب , رنجش, صلاح رحمی, اور بے حس زمانہ کی روداد پر کثیر اشعار ملتے ہیں جو شاعر کی قادرالعلمی, قادرالکلامی, قادرالمطالعہ, کے تجزبات و تجزیات پر مشتمل اشعار ہیں ۔ اب بات کرتے ہیں علم عروض کے اسباق پر مشتمل کتاب "تعمیر سخن” میں موجود اسباق پر انتہائی عمدہ اور آسان فہم نثر کے ساتھ اس کتاب میں علم عروض کے اسباق پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ کتاب قریب 128 صفحات پر مشتمل ہے اس کا ایک بار مطالعہ کرنے سے عام قاری بھی محاسن شعر, کو سمجھ جاتا ہے ۔ نۓ لکھنے والوں کے لۓ اس میں وہ تمام بنیادی تعلیم موجود ہے جو کہ اشعار کے لۓ اہمیت کی حامل ہیں ۔ ہم چند شعری اسباق پر بات کریں گے جن میں ۔
باب اول محاسنِ سخن ۔
محاسنِ سخن پر باریک بینی سے اصلاحی پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے حسن بلاغت, حسنِ فصاحت, حسنِ شعریّت حسِ آہنگ , حسنِ قافیہ , حسنِ ردیف , شعری درجہ بندی , حسنِ تخیل , حسنِ بندش , ، سے لے کر حسنِ محاورہ تک بہترین انداز میں مثالوں کے زریعہ سے محاسن شعر پر روشنی ڈالی گی ہے ۔ اسی طرح علم بیان میں حسنِ استعارہ , تشبیہ , مجاز مرسل , حسنِ کنایہ ,پر بھی تفصیلی بات کی گئی ہے علم بدیع , صنائع معنوی ,پر بھی سیر
حا صل اسباق موجود ہیں معائب سخن ,متروکات سخن اور مستعمل بحور کے اسباق انتہائی محنت سے تحریر کۓ گۓ ہیں مجموعی طور پر اس کتاب میں علم عروض کے ابتدائی اسباق واضع اور سلیس انداز میں تحریر کۓ گۓ ہیں
اس کتاب میں ابھی بہت سے علم عروض کے اسباق کی تشنگی باقی ہے جس میں دائروں اور غیر مستعمل بحور کے ساتھ ساتھ نئی بحور کو اسباق میں شامل کرنے کی ضرورت ہے غرض یہ کہ نۓ لکھنے والوں یا ان پرانے لکھنے والوں کے لۓ جو علم عروض کے ابتدائی اسباق اور اصلاحِ شعر کے متلعق خود پر بھروسہ نہیں رکھتے ان کے لۓ ایک مفید اور اچھی کتاب ہے اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے بہت سے شعری لوازمات سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے ۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے شاعر نے اپنے اشعار کی مثالیں دے کر اشعار کے محاسن پر بات کی ہے جو کہ مولف کی قادرالعلمی کا اورقادرولقلامی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے
رمضان صابر پنوار کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک پیش کرتے امید رکھتا ہوں کہ آئند کی کتاب میں وہ تمام اسباق کو شامل کریں گے جو علم عروض کی مکمل کتاب کے طور ادب میں ہمیشہ اپنا حصہ شامل رکھے گی ۔ اس دعا کے ساتھ کہ ان کا قلم ادبی خوشبو دور دورتک پہنچانے کا وسیلہ بنے آمین ۔
عرفان خانی
فونڈر عالمی ادب اکادمی