تلخ لہجے میں گفتگو کرکے
دل کو ٹھکرا دیا لہو کر کے
جو نہ سمجھا تھا مجھ کو اے واعظ
کیا بتاتی اسے وضو کرکے
سخت بد حالیوں کا موسم تھا
وقت ساکن تھا گل کو بو کر کے
جب رقیبوں میں خوش وہ رہنے لگا
کیا کروں خود کو خوبرو کر کے
بخت کا امتحاں تھا کیا کرتی
دامنِ چاک کو رفو کرکے
وقت کردے گا فیصلہ اس کا
کیا کروں میں عدو عدو کر کے
آدمی وحشتوں کا راہی ہے
خود کو سمجھی ارم لہو کر کے
ارم ایوب