MOJ E SUKHAN
No Record Found
تُم
اس دُنیا میں تُم میری بھٹکتی ہوئی, بے راہرو زندگی اور لا حاصل خواہشوں کا مکمل ایڈریس ہو!
معظمہ نقویؔ۔
جب سے باندھا ہے ترے عشق کی زنجیر سے دل – Jab
دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں
دریا میں یہ ناؤ کس طرف ہے
اک طنز بھی نگاہِ سخن آفریں میں تھا
اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو
پھر ایک دوسری ہجرت نہیں زمین نہیں
اک شخص سے کدورت اک شخص کی حمایت
کس قدر روح پشیماں ہے تمہیں کیا معلوم
بہا کے بستی کو مطلع جو کھل گیا سائیں
آتش دلِ زار میں لگائی اس نے رباعی
تھا ہم سے بھی ربط یا کہ نہ تھا
جب سے وہ گئے ادھرنہیں یاد کیا رباعی
یہ حکم خدا کا کہ قطرہ مے کا نہ پیوں – Ye
مومن لازم ہے وضع مرغوب بنے
رباعیات حکیم عمر خیام نیشا پوری
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں رباعی امیر مینائی
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو رباعی امیر مینائی
باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں رباعی قلندر
سب ستارے لٹا دیۓ میں نے
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
عشق جب تک جان و دل کا رہنما ہوتا نہیں
رازداں ہم نے بنایا آپ کو
جرم الفت کی سزا دینے لگے
از رہِ التفات بنتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
سنو اے باوفا لڑکے
تمہاری خاطر نقاب اوڑھوں نہ گھر سے نکلوں
تیرے جانے سے کچھ نہیں بدلا
ہو نے سر جو بدلا ہے
ادھر ادھر کی نہ تم سنانا بچھڑنے والے بتا کے جانا
آجکل دل کا عجب حال ہوا ہے جاناں
جا ترے بس میں نہیں یار محبت کرنا
نظم ہونے لگی
سنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے