تمام عمر ترے نام پر گزاری ہے
مجھے سنوارنا اب تیری ذمہ داری ہے
کسی نے میرے اجالے بھی مجھ سے چھین لیے
کسی نے میرے لیے کہکشاں اتاری ہے
بہت سے چہرے نئے خال و خد کے طالب ہیں
یہ ایسا وقت ہے جو آئنے پہ بھاری ہے
کسی طرح سے بھی ہم ایک ہو نہیں پائے
محبتوں میں تعصب کا کھیل جاری ہے
میں تیرے نام پہ روزانہ خرچ ہوتا ہوں
مرے مزاجِ محبت میں غم گساری ہے
نئے سفر میں ترے ساتھ چل نہیں سکتا
تری وفاؤں کا انداز کاروباری ہے
کسی کے حق میں کوئی کھل کے بولتا بھی نہیں
تمام شہر پہ کس کی اجارہ داری ہے
فساد پھیل گیا میری حق نوائی سے
میں آئنہ ہوں مجھے خوفِ سنگ باری ہے
شکست و فتح کا اعلان بعد میں ہوگا
نثار تجھ سے ابھی میری جنگ جاری ہے
ڈاکٹر نثار احمد نثار