تمھارے پیار کے امرت کو خود میں گھو لوں میں
ذرا سا ہوش میں آ لوں یہاں تو بولوں میں
میں سن رہی ہوں کہیں پھر صدائے کن فیکون
یہ کائنات کی خواہش ہے مست ہو لوں میں
چبھن ہے خار سی مجبوریوں کی اس دل میں
سو بن کے تازہ ہوا گل کے راز کھولوں میں
بھگو رہی ہے مسلسل پھوار بارش کی
ہے خشک آنکھ بہت کھل کے آج رولوں میں
یہ مجھ پہ میرے زبان و بیان کا حق ہے
ادا جو ہوتے ہیں الفاظ ان کو تولوں میں
جو کنجِ دل میں حسیں راز اک چھپایا ہے
وہ راز کیوں نہ سر۔عام آج کھو لوں میں
ستم ظریف نگاہوں نے ان کی اے رضیہ
جو داغ دل پہ لگائے ہیں آج دھو لوں میں
رضیہ سبحان