تمہاری شاموں سے , میری یادیں نکل نہ پائیں تو لوٹ آنا
وہاں دسمبر کی بارشیں بھی نہ راس آئیں تو لوٹ آنا
کبھی جو اجڑے دیارِ ماضی کی یاد آئے تو مڑ کے تکنا
اگر اماوس کی ٹھنڈی راتیں ، بدن جلائیں تو لوٹ آنا
عروجِ شب کے اداس لمحوں میں بھولی بھالی سی جھیل آنکھیں
عذابِ فرقت میں اشک بن کر تمہیں ستائیں تو لوٹ آنا
افق سے آگے بھی جا سکو تو سفر پہ جاؤ ، مگر خدا را
بہارِ نو کے سجیلے موسم جو گل کھلائیں تو لوٹ آنا
اکیلے پن کی اداس شامیں شفق میں ڈھل کر یہ کہہ رہی ہیں
اندھیری راتوں میں چاند سائے ، رضا ، بلائیں تو لوٹ آنا
احمدرضاراجا