تمہیں اب کیا بتاؤں میں، کہ کیا کیا دیکھ سکتی ہوں
تمہاری سوچ سے تھوڑا زیادہ دیکھ سکتی ہوں
میں وہ بھی بھانپ لیتی ہوں چھپا رکھتے ہیں جو دل میں
چھپا ہے کون اپنوں میں پرایا دیکھ سکتی ہوں
ہے اپنوں کے رویوں کا بہت ہی تجربہ مجھ کو
سو، میں احباب کے دل کا ارادہ دیکھ سکتی ہوں
مجھے اس زیست نے اتنا گزارا امتحانوں سے
کہ اب ہر امتحاں کا میں نتیجہ دیکھ سکتی ہوں
ہیں کھائے اس قدر دھوکے، کسوٹی بن گئیں آنکھیں
کھرا ہے یا کوئی کھوٹا میں اتنا دیکھ سکتی ہوں
نہ اپنے دل میں ایسی تم غلط فہمی کوئی رکھّو
کہ میں اب بھی کھلی آنکھوں سے سپنا دیکھ سکتی ہوں
نقاب اندر نقاب اتنے لگا رکھے ہیں لوگوں نے
مگر میں بھی صدف ہوں رنگ دنیا دیکھ سکتی ہوں
صدف بنتِ اظہار