تم آئے ، سلیقے کہاں آتے ہوں گے؟
گھڑی دو کو پیرِ مغاں آتے ہوں گے
سبھی کو جو قائل کیے بیٹھتے ہیں
انھیں صد طریقِ بیاں آتے ہوں گے
اب اتنی تو آتی ہے مردم شناسی
وہ بہرِ شماتت یہاں آتے ہوں گے
غموں کو ہے اک میرا کندھا میسر
کوئی دم کو بہرِ فغاں آتے ہوں گے
یہ دستورِ دنیا ہے ان سے گلہ نہیں
وہ گن گن کے سود و زیاں، آتے ہوں گے
نوشین فاطمہ