غزل
تم سے بھی بات چیت ہو دل سے بھی گفتگو رہے
خواب و خبر کا سلسلہ یونہی کبھو کبھو رہے
درد بھی ہاتھ تھام لے زخم بھی بولنے لگیں
یعنی نہال شاخ غم ایسے ہی با نمو رہے
عشق میں احتیاط ہی گویا ہے پاس وضع عشق
چاک ہوں صد ہزار اور دامن دل رفو رہے
تو جو نہیں تو میں نہیں میں جو نہیں تو تو کہاں
دونوں طرح تھی بات ایک میں رہوں یا کہ تو رہے
اور متاع جان و دل کچھ بھی نہ مجھ کو چاہئے
سینے میں اک چراغ سا آنکھ میں اک لہو رہے
ایک چراغ ہنس پڑا طاق میں احتیاط سے
اور ہوا سہم گئی پھول کی آبرو رہے
ایک لکیر رو پڑی دونوں ہتھیلیوں کے بیچ
رنگ حنا چھپا گیا ہاتھ لہو لہو رہے
عشرت آفرین