تم کو دِکھائی دیتا ہے میں ، گَرد گَرد ہوں
تھا میں کبھی جَوّالا مُکھی ، آج سَرد ہوں
دامن پہ کوئی داغ ، نہ آنکھوں میں کوئی خواب
عشاق کے قبیلے کا ، قَلاش مَرد ہوں
اپنا وجود ، لگنے لگا مجھ کو اجنبی
لگتا نہیں مجھے کہ میں اِس گھر کا فَرد ہوں
کیا ڈھونڈتا رہا ہوں میں صَحرا میں ، شَہر میں
صَحرا نَورد ہوں ، کہ میں آوارہ گَرد ہوں
چلتا رہا ہوں ، آبلہ پائی کے باوجود
منزل پکارے جس کو ، میں وہ رِہ نَورد ہوں
تو حسن ِ لازوال ہے ، تیرا نہیں جواب
میں عشقِ بے مِثال میں یَکتا ہوں ، فَرد ہوں
آواز دے رہا تھا سَمندر مجھے ، عظیم
اور لوگ کہ رہے تھے ، میں صَحرا کی گَرد ہوں
یونس عظیم