سکردو کے ان برف زاروں سے ایک نرم گونج اُبھری ہے—وہاں سے جہاں خاموشی بھی شعر سناتی ہے، اور تنویر حسین جیسے نوجوان شاعر اپنی بے ساختہ، مگر بے حد مہذب صدا سے دلوں کو چھو رہا ہے۔ وہ محبت کو رومان کی کلیشے زدہ زمین پر نہیں اُگاتا، بلکہ جدائی کی ٹھٹھرتی مٹی سے وہ شعلہ کشید کرتا ہے جو نہ تپاتا ہے نہ بجھتا ہے—بس جلتا ہے، دھیرے دھیرے، مسلسل۔
تیرے ہوتے ہوئے بھی دنیا میں
وقت اچھا نہیں کٹا میرا
یہ وہ مصرع ہے جو ایک عاشق کی اُداس سانس جیسا ہے، جس میں محبوب کی موجودگی بھی غیر موجودگی سے زیادہ بے مہر لگتی ہے۔ تنویر کی شاعری سادہ ہے، مگر سادگی کے پردے میں ایک پرانا دکھ سسک رہا ہے، ایک ایسا دکھ جو نیا ہونے کی اداکاری نہیں کرتا۔
ہم اور کسی شخص کی بانہوں میں ملیں گے
وہ دیکھتی رہ جائے گی تصویر ہماری
یہاں شاعر طنز کو عاشقانہ بیبسی میں گھول کر پیش کرتا ہے۔ تنویر کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر بیان کو کسی پہاڑی چشمے کی طرح بہنے دیتا ہے — شور کم، اثر گہرا۔
جیسے کہ اُٹھاتی ہیں جواں مرگ پہ مائیں
دل نے تِرے جانے پہ وہ کہرام اُٹھائے
یہ مصرع شاعر کے سینے کی دھڑکن نہیں، بلکہ کسی ماں کے سینے سے پھوٹتا ہوا بین ہے۔ اس میں صرف محبت کا درد نہیں، ایک وجودی صدمہ بھی چھپا ہے—گویا وہ محبت کو صرف رومانی سانچے میں نہیں ڈھالتا ، بلکہ اسے زندگی کے بڑے دکھوں میں جذب کر دیتا ہے ۔
تنویر کی شاعری میں دل شکستہ عاشق صرف محبوب کے انکار پر نہیں رو رہا، وہ تو شاید خود زندگی کے انکار پر نوحہ کناں ہے:
میں ترے انکار سے شاعر بنا
شکریہ! انکار کرنے کے لیے
کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے شاعر اکثر رد کیے جانے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں؟ تنویر حسین کا یہ اعتراف انہیں صرف ایک عاشق نہیں، ایک درویش شاعر بنا دیتا ہے۔
نو پانچ پہ وہ روکنے آ جائے گی لیکن
نو چار پہ اُڑ جائے گی پرواز ہماری
یہاں شاعری وقت کی بے رحم ترتیب اور قسمت کی ناہمواری کو ایک چھوٹے سے لمحے میں سمیٹ لیتی ہے۔ وہ جو تنویر کی شاعری کو "سادہ” کہے، شاید”اثر” کا مفہوم بھول بیٹھا ہے۔
اُس کی خوشبو اگر نہیں آتی
آج ہم راستہ بھٹک جاتے
یہ مصرع تنویر کی جمالیات کا لب لباب ہے—محبوب خوشبو ہے، رہنما ہے، اور غیر موجودگی میں خود راستہ بھی دشمن بن جاتا ہے۔
آخر میں، ایک بات واضح ہے
تنویر حسین کے ہاں محبت، ہجر، قسمت، اور خودی—یہ سب ایک ہی دسترخوان کے کونے کونے پر رکھے برتن ہیں، اور قاری جب ان کی شاعری پڑھتا ہے تو کسی پہاڑی وادی میں بیٹھا، چپ چاپ ان سب ذائقوں کو چکھتا ہے۔
سکردو کے سرد موسموں میں یہ دل گرم رکھنے والی آگ، تنویر کے شاعری سے آتی ہے۔ اور ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ آگ نہ بجھے، نہ جلے، بس یوں ہی سلگتی رہے—شاعری کی زمین پر نئے دستخط کرتی ہوئی۔
چند منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں ،دوستو
تیرے ہوتے ہوئے بھی دنیا میں
وقت اچھا نہیں کٹا میرا
ہم اور کسی شخص کی بانہوں میں ملیں گے
وہ دیکھتی رہ جائے گی تصویر ہماری
فرقوں کے تصادم نے ہمیں بانٹ دیا ہے
یعنی وہ نہ ہو پائے گی تنویر ہماری
ایک ہفتے سے اُسے دیکھا نہیں
یعنی اک ہفتے سے روزہ ہے مِرا
جیسے کہ اُٹھاتی ہیں جواں مرگ پہ مائیں
دل نے تِرے جانے پہ وہ کہرام اُٹھائے
تھک ہارنے والوں کو تو ہے موت سے مطلب
اللہ اُٹھائے کہ اُنہیں رام اُٹھائے
میں ترے انکار سے شاعر بنا
شکریہ! انکار کرنے کے لیے
میں ہاتھ میں بندوق لیے در پہ کھڑا ہُوں
اب لگ کے دِکھائے تِری دیوار سے کوئی
قدرت نے مِرے بس میں نہیں رکھا ہے ورنہ
میں پھول بناتا تِرے رُخسار سے کوئی
ہمیں سُنے نہ سُنے یہ تو اُس کی مرضی ہے
ہمارا فرض ہے اُس کو پُکارتے رہنا
داد دیتا ہُوں میں تیرے ضبط کی
تُو مجھے کھو کر بھی گھبرایا نہیں
نو پانچ پہ وہ روکنے آ جائے گی لیکن
نو چار پہ اُڑ جائے گی پرواز ہماری
ہم اُس کے لیے تاج محل کیسے بنائیں؟
بننا جو نہیں چاہتی مُمتاز ہماری
اُس نے بھی مناسب نہیں سمجھا ہمیں سُننا
ہم کو بھی کھٹکنے لگی آواز ہماری
اُس کی خوشبو اگر نہیں آتی
آج ہم راستہ بھٹک جاتے
میں تو ہر روز سنورتا تھا اُسی کی خاطر
وہ مرے واسطے تیار کہاں ہوتی تھی
کسی پر بھی نہ جھاڑا رُعب ہم نے
کسی کو بھی نہیں ہے ڈر ہمارا
آج میں مُسکرا نہیں پایا
آج تُو سوگوار ہے شاید
آسیب کا سایہ ہے کہ منحوس ہے قسمت؟
رستے سے پلٹ جاتی ہے بارات ہماری
ایک بے مہر کی محبت میں
میں بہت دربدر ہوا، توبہ
جس جگہ سے بہت محبت تھی
حادثہ بھی اُدھر ہوا، توبہ
وہ رات اچانک سے مِرے خواب میں آ کر
بولی کہ کبھی باندھوں گی میں ٹائی تمہاری
اک روز چلا آؤں گا بن کر میں تمہارا
اک روز مٹا دوں گا میں تنہائی تمہاری
تُو نے تو کبھی پیار کے دو بول نہ بولے
پھر بھی تِری دہلیز پہ سر خم ہے، ستم ہے
اِس وسیع و عریض دُنیا میں
ایک لڑکی تو آپ سی نکلے
جب بھی دیکھوں کوئی حسین کنول
میرے ہونٹوں سے شاعری نکلے
وہ پیٹھ کے پیچھے تو بہت بکتے ہیں لیکن
کچھ بول نہیں پاتے ہیں تنویر کے آگے