loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

06/08/2025 21:14

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

۔

شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر

اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ

۔

نخل ہستی نظر آئے گا کبھی نخل صلیب

زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ

۔

ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز

یہی بے رنگ سی دنیا یہی بے مہر سے لوگ

۔

مطمئن رہتے ہیں طوفان مصائب میں کبھی

ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ

۔

اے زمیں آج بھی ذرے ہیں ترے مہر تراش

اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ

۔

صرف محرومیٔ فرہاد کا کیا ذکر سحرؔ

بے ستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ

سحر انصاری

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم