تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ
۔
شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ
۔
نخل ہستی نظر آئے گا کبھی نخل صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ
۔
ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا یہی بے مہر سے لوگ
۔
مطمئن رہتے ہیں طوفان مصائب میں کبھی
ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ
۔
اے زمیں آج بھی ذرے ہیں ترے مہر تراش
اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ
۔
صرف محرومیٔ فرہاد کا کیا ذکر سحرؔ
بے ستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ
سحر انصاری