تنہائی میں اکثر یہی محسوس ہوا ہے
جس طرح کوئی میری طرف دیکھ رہا ہے
ڈھونڈا کوئی ساتھی جو کبھی دشت وفا میں
اک اپنا ہی سایہ مجھے ہر بار ملا ہے
سینے میں ہے محفوظ متاع غم دوراں
دیباچئہ ایام مرے دل پہ لکھا ہے
آہٹ سی شب غم جو تجھے دی ہے سنائی
اے دل وہ ترے اپنے دھڑکنے کی صدا ہے
ہو خیر چراغان سر راہ گزر کی
سنتے ہیں بہت تیز زمانے کی ہوا ہے
یک رنگ کہاں ہوتی ہے انسان کی فطرت
ہر پھول کی خوشبو ہے الگ رنگ جدا ہے
مغرور نہ ہو حسن پہ اے شمع فروزاں
پروانے کی آنکھوں میں کوئی اور ضیا ہے
نیند آتی ہے یزدانیٔ مضطر کو سکوں سے
یہ موت ہے یا دوست کے دامن کی ہوا ہے
جالندھری یزدانی