تو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا
میں کسی قبر کے نشاں جیسا
۔
میں نے ہر حال میں کیا ہے شکر
اس نے رکھا مجھے جہاں جیسا
۔
ہو گئی وہ بہن بھی اب رخصت
پیار جس نے دیا تھا ماں جیسا
۔
فاصلہ کیوں دلوں میں آیا ہے
گھر کے آنگن کے درمیاں جیسا
۔
میرے دل کو ملا نہ لفظ کوئی
میرے اشکوں کے ترجماں جیسا
۔
میرے اک شعر میں سمایا ہے
کرب صدیوں کی داستاں جیسا
۔
شہر میں ایک مجھ کو دکھلا دو
تم مرے گاؤں کے جواں جیسا
۔
جھیل سی ان اداس آنکھوں میں
عکس تھا نیلے آسماں جیسا
۔
مجھ کو ویسا خدا ملا بالکل
میں نے عارفؔ کیا گماں جیسا
عارف شفیق