غزل
تو میرے درد کو دنیا نئی نئی دینا
مرے خدا مجھے کچھ اور آگہی دینا
جو حسرتیں ہی مری زندگی کا حاصل ہیں
تو حسرتوں کے اندھیروں کو زندگی دینا
جو تو نے اپنے کرم سے دیا ہے اپنوں کو
مری مژہ کو ان اشکوں کی بھی نمی دینا
یہ غم کدہ تو سنورتا رہا ہے برسوں سے
اسے جو راس نہ آئے وہی خوشی دینا
میں تجھ سے کچھ بھی نہیں مانگتا مرے مالک
مرے قلم کو مرے خوں کی چاشنی دینا
جہاں سے دل کو بچا کر میں تجھ تلک لاؤں
وہیں پہ سینے میں نیزے کی اک انی دینا
متینؔ تیرا نہیں ہے تو اور کس کا ہے
بہشت دینا تو دوزخ کی آگ بھی دینا
اقبال متین