غزل
تو نہیں تو تیرا درد جاں فزا مل جائے گا
زندہ رہنے کا کوئی تو آسرا مل جائے گا
اے مری چشم پشیماں اپنے آنسو روک لے
رات کی تنہائی میں رونے سے کیا مل جائے گا
زندگی کے کارواں پر کچھ اثر پڑتا نہیں
اک مسافر کھو گیا تو دوسرا مل جائے گا
ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر ہے بے چراغ
تیرگی سے آپ کو میرا پتا مل جائے گا
سوچتے رہنے سے تو منزل کبھی ملتی نہیں
چلتے جاؤ راستے سے راستہ مل جائے گا
کوئی تو میرا بھی ہوگا منتظر باقیؔ یہاں
اک نہ اک تو دل کا دروازہ کھلا مل جائے گا
باقی احمد پوری