غزل
تو ہم سے مل تو تجھ کو حال دل اپنا سنا ڈالیں
کہے تو جام میں خون جگر اپنا ملا ڈالیں
ترس کھا مجھ پہ اور وقت جنوں یوں نہ رلا مجھ کو
وگرنہ آنسوؤں سے اپنے تیرا غم جلا ڈالیں
حواسوں میں ہمارے اس کو اب تو زندہ رہنے دے
کہیں ایسا نہ ہو ہر لمحہ خوشیاں ہم بھلا ڈالیں
بدلنے کے لئے کیوں رنگ تجھ کو اتنی عجلت ہے
ہمیں ڈر ہے نشان مثل تیری ہم مٹا ڈالیں
جگا رکھا ہے نیندوں کو ہماری جانے برسوں سے
تو ہو سکتا ہے خوابوں کو ہی تیرے ہم سلا ڈالیں
سمیٹا ہے تجھے خود میں ہمیشہ پھولوں کی مانند
کہیں ایسا نہ ہو زخموں کو تیرے ہم کھلا ڈالیں
پروین شغف