تُو اپنے رب سے ڈرتا کیوں نہیں ہے؟
جو ڈر ہے ، تو! سنورتا کیوں نہیں ہے؟
تجھے تیرا "تکبر” ڈس رہا ہے
تکبر! سے ٹکرتا کیوں نہیں ہے ؟
درونِ دل سے” نفرت "کو کھرچ کر!
"محبت” اس پہ دھرتا کیوں نہیں ہے؟
ندامت! "چپ "کے ساحل پر کھڑی ہے
سکوں پرور! بپھرتا کیوں نہیں ہے؟
نہ ہو قول و عمل تیرا تضادی !
یہ وعدہ خود سےکرتا کیوں نہیں ہے؟
جہاں بھر میں تو عرضی لے کے گھوما!
تو رب سے عرض کرتا کیوں نہیں ہے ؟
نزی! غفلت میں بیداری کا قائل!
خرد کا جام بھرتا کیوں نہیں ہے ؟
نازیہ نزی