تُو اپنے پاؤں جس سے دھو چکا تھا
وہ کوزہ قد میں دریا ہو چکا تھا
میں گھر لوٹا تھا کر کے دیں کی خدمت
میرا بھوکا پڑوسی سو چکا تھا
نہیں ہے عشق میرا تیرے دل میں
وہ دانہ گم ہے جو میں بو چکا تھا
بچھڑ کر میرے ہونٹوں پر ہنسی تھی
تیرے جانے سے پہلے رو چکا تھا
طوائف مر گئی فاقہ کشی سے
نگر سارا نمازی ہو چکا تھا
محمد رضا حیدری