loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

21/04/2025 01:39

تُو ہَوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دِیا جلانے کی ضد نہ کر

تُو ہَوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دِیا جلانے کی ضد نہ کر
یہ اُداس لوگوں کا شہر ہے یہاں مسکرانے کی ضد نہ کر

میں ہوں دوستوں کا ڈسا ہُوا ، مِرا غم ہے حد سے بڑھا ہُوا
میں شکستہ گھر کی مثال ہوں ، مِرے پاس آنے کی ضد نہ کر

میں تِری غزل تو نہیں ہوں ناں ، جو ہر ایک لب پہ سجا رہوں
میں تو ایک مصرعہِ درد ہوں مجھے گنگنانے کی ضد نہ کر

یونہی روشنی کی طلب میں تُو ، مِرے دل کو نہ دے اذیتیں
جو کسی کے ہجر میں جل بُجھا ، اُسے پھر جلانے کی ضد نہ کر

ابھی لوٹ آ، ابھی وقت ہے، ابھی سانس باقی ہے جسم میں
تجھے عِلم ہے مِری جاں ہے تُو، مجھے آزمانے کی ضد نہ کر

مجھے غم دیئے ہیں تو نیّرا پھر ؛ یہ ملال کیا ، یہ جلال کیوں
مِرے زخم زخم سے لُطف لے ، مِرے ٹوٹ جانے کی ضد نہ کر

شہباز نیر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم