غزل
تھا انجمن میں غیر کی دلبر بنا ہوا
بیٹھا ہے میرے سامنے پتھر بنا ہوا
بن کر بگڑنا عرصۂ ہستی کے کھیل ہیں
بگڑا ہزار بار مقدر بنا ہوا
آ جاؤ دل میں رونق ہر زندگی لیے
موجود ہے تمہارے لئے گھر بنا ہوا
اک شخص میرے ساتھ ہی رہتا ہے رات دن
آئینۂ حیات کا جوہر بنا ہوا
پتھر پھر اس کے ہاتھ میں کس نے تھما دئے
خونیں ہے راہ راہ کا منظر بنا ہوا
اہل نظر ہے بدر جمالیؔ نہ اہل فن
اتراتا پھر رہا ہے سخنور بنا ہوا
بدر جمالی