تھا عبث خوف کہ آسیب گماں میں ہی تھا
مجھ میں سایہ سا کوئی اور کہاں میں ہی تھا
سب نے دیکھا تھا کچھ اٹھتا ہوا میرے گھر سے
پھیلتا اور بکھرتا وہ دھواں میں ہی تھا
سچ تھا وہ زہر گوارا ہی کسی کو نہ ہوا
تلخی ذائقۂ کام و زیاں میں ہی تھا
خود ہی پیاسا تھا بھلا پیاس بجھاتا کس کی
سر پہ سورج کو لئے ابر رواں میں ہی تھا
در پہ اک قفل پر اسرار پڑا تھا فرخؔ
بھید کھلتا بھی تو کیسے کہ مکاں میں ہی تھا
فرخ جعفری