تھا پس مژگان تر اک حشر برپا اور بھی
میں اگر یہ جانتا شاید تو روتا اور بھی
پاؤں کی زنجیر گرداب بلا ہوتی اگر
ڈوبتے تو سطح پر اک نقش بنتا اور بھی
آندھیوں نے کر دیئے سارے شجر بے برگ و بار
ورنہ جب پتے کھڑکتے دل لرزتا اور بھی
روزن در سے ہوا کی سسکیاں سنتے رہو
یہ نہ دیکھو ہے کوئی یاں آبلہ پا اور بھی
ہر طرف آواز کے ٹوٹے ہوئے گرداب ہیں
روشنی کم ہے مگر چلتا ہے دریا اور بھی
صرف تو ہوتا تو تیرا وصل کچھ مشکل نہ تھا
کیا کریں تیرے سوا کچھ ہم نے چاہا اور بھی
آرزو شب کی مسافت ہے تو تنہا کاٹیے
دن کے محشر میں تو ہو جائیں گے تنہا اور بھی
توصیف تبسم