غزل
تھوڑی سی وضع اوڑھ لی اور وضع دار ہو گئے
اصحاب عز و جاہ میں ہم بھی شمار ہو گئے
ہم بھی چٹان تھے مگر ضرب شدید وقت سے
ہر لمحہ ٹوٹتے رہے آخر غبار ہو گئے
ترکش میں جس کے تیر تھے نہ ہاتھ میں کمان تھی
شومئی بخت دیکھتے اس کا شکار ہو گئے
منڈی میں لے تو آئے ہو لیکن وہ بک نہ پائیں گے
موسم کی مار سے جو پھول داغ دار ہو گئے
شرم و حیا ادب کے جو تھے کچھ لباس فاخرہ
گھر میں رکھے رکھے ہی وہ تار تار ہو گئے
سب کے حقوق کچھ نہ کچھ ہیں قرض میری ذات پر
کیسے چکاؤں گا وہاں اتنے ادھار ہو گئے
احتشام الحق صدیقی