loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

08/06/2025 01:42

تیری بے رخی مری موت تھی ہوا التفات کبھی کبھی

غزل

تیری بے رخی مری موت تھی ہوا التفات کبھی کبھی
ترے التفات کی خیر ہو کہ ملی حیات کبھی کبھی

رہ آرزو میں کہیں کہیں مجھے روک دیتے ہیں حادثے
غم عشق ہے مرا مستقل غم کائنات کبھی کبھی

مری جنبش لب غم زدہ جو ترے مزاج پہ بار ہے
مرے آنسوؤں کی زباں سے سن غم دل کی بات کبھی کبھی

نہیں ایک حال میں کچھ مزہ کرو چاشنی بھی مجھے عطا
مری زندگی کے سکوت میں نئی واردات کبھی کبھی

وہ جہاں کہیں نظر آ گئے بڑا اتفاق حسیں رہا
مجھے تیرگی تھی نصیب میں ملی چاند رات کبھی کبھی

میں زمیں نورد تھا عشق میں مگر ایسے موڑ بھی آ گئے
مہ و مہر تک مجھے لے گیا سفر حیات کبھی کبھی

ترا قیصرؔ امن و سکوں میں بھی نہ بچا فریب جمال سے
تری اک نگاہ سے کھل گیا در حادثات کبھی کبھی

قیصر حیدری دہلوی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم