غزل
تیری صدا کی آس میں اک شخص روئے گا
چہرہ اندھیری رات کا اشکوں سے دھوئے گا
شعلے ستم کے لائے گی اب رات چاندنی
سورج بدن میں دھوپ کے خنجر چبھوئے گا
اے شہر نا مراد تجھے کچھ خبر بھی ہے
دریا دکھوں کے زہر کا تجھ کو ڈبوئے گا
پربت گرے گا ٹوٹ کے گہرے نشیب میں
کب تک جمود برف کا وہ بوجھ ڈھوئے گا
فکریؔ تو اپنی بات کا انداز تو بدل
ورنہ خزینہ نام کا اک روز کھوئے گا
پرکاش فکری