غزل
تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا
تو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوق ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا
میرا جواب کیا تھا تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب ترا سوال مجھے بھی نہیں رہا
جس بات کا خیال نہ تو نے کبھی کیا
اس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا
توڑا ہے تو نے جب سے مرے دل کا آئنہ
اندازۂ جمال مجھے بھی نہیں رہا
باقیؔ میں اپنے فن سے بڑا پرخلوص ہوں
اس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا
باقی احمد پوری