غزل
تیری قدرت کے معترف کے لیے
اسم اعظم ہے مکتشف کے لیے
آئنہ وار جھلملائے ہیں
اپنے معکوس و منعطف کے لیے
کوئی جائے سکون ہے کہ نہیں
رسم کہنہ کے منحرف کے لیے
مستقل اک جواب لا اعرف
وہ بھی اک راز منکشف کے لیے
من و سلویٰ اترنے والا تھا
دشت امکاں کے معتکف کے لیے
بشریٰ مسعود