غزل
تیری نظروں میں معتبر نہ ہوئی
میں معطر ہوئی مگر نہ ہوئی
حال دنیا پہ کھل گیا میرا
ایک بس آپ کو خبر نہ ہوئی
زندگی ریزہ ریزہ ہو کر بھی
آج تک گرد رہ گزر نہ ہوئی
تو سفر کار تھا سفر میں رہا
میں ترے پاؤں میں ڈگر نہ ہوئی
تیرے دل تک چلی نہیں آئی
اپنی بھی ذات کی مگر نہ ہوئی
تیری یادیں تھیں میرے ساتھ مگر
ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
کیے روشن کئی چراغ دعا
روشنی پھر بھی بام پر نہ ہوئی
دعا علی