Teri Gali ko Choor Kay Jaana tu Hay Nahi
غزل
تیری گلی کو چھوڑ کے جانا تو ہے نہیں
دنیا میں کوئی اور ٹھکانا تو ہے نہیں
جی چاہتا ہے کاش وہ مل جائے راہ میں
حالانکہ معجزوں کا زمانا تو ہے نہیں
اس گھر میں اس کے نام کا کمرہ ہے آج بھی
جس کو کبھی بھی لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
شاید وہ رحم کھا کے مری جان بخش دے
قاتل ہے کوئی دوست پرانا تو ہے نہیں
اشکوں کو روحیؔ خرچ کرو دیکھ بھال کے
آنکھوں کے پاس کوئی خزانا تو ہے نہیں
ریحانہ روحی
Rehana Roohi