غزل
تیرے ہونٹوں کی خیر مانگی ہے
یعنی پھولوں کی خیر مانگی ہے
یہ خبر ہے کہ بادلوں نے ابھی
تیری زلفوں کی خیر مانگی ہے
سارے بجھتے ہوئے چراغوں نے
جلتی آنکھوں کی خیر مانگی ہے
کچھ فقیروں نے دان کے بدلے
کج کلاہوں کی خیر مانگی ہے
ڈولتے تخت اڑتے تاجوں نے
بادشاہوں کی خیر مانگی ہے
تیری بندیا نے تیرے جھمکوں نے
چاند تاروں کی خیر مانگی ہے
دوڑتی ہانپتی خزاؤں نے
لالہ زاروں کی خیر مانگی ہے
ایک سسی کے زخمی پیروں نے
ریگزاروں کی خیر مانگی ہے
افتخار شاہد ابو سعد